امام جعفر صادق
محمد
شهباز عالم مصباحی
اتر
بنگال ڈیولپمنٹ موومنٹ، اتر دیناج پور، مغربی بنگال
جعفر صادق، حضرت
محمد باقر کے فرزندتھے۔ سید خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ جعفری انہی کی
نسبت سے لگاتے ہیں۔ ان کا نام جعفر، کنیت ابو
عبداللہ اور لقب صادق تھا۔ آپ امام محمد باقر کے بیٹے امام زین العابدین کے پوتے اور
شہید کربلا امام حسین کے پڑپوتے تھے۔ آپ کی والدہ ام فروہ محمد ابن ابی بکر کی پوتی
تھیں جن کے والدقاسم ابن محمد مدینہ کے سات فقہا میں سے تھے۔] تذکرہ
مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ 57مشتاق بک کارنر لاہور[
71ربیع
الاول 80ھ يا 83ھ کو آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی اوروفات 24 شوال يا 15 رجب 148ھ
بمطابق 765ء مدینہ منورہ میں ہوئی- ]مسالک السالکین، ج:1، ص:[ 217
امام جعفر صادق کی
عاجزی
آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ عالی نسب ہونے کے باوجود عاجزی کے پیکر تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سیدنا داؤدطائی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ نے امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض
کیا:''آپ چونکہ اہلِ بیت میں سے ہیں ،اس لئے مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔‘‘ لیکن وہ خاموش
رہے ۔ جب آپ نے دوبارہ عرض کیا کہ ،''اہلِ بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے آپ
کو جو فضیلت بخشی ہے ، اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔‘‘ یہ سن کر امام
جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ''مجھے تو خود یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں قیامت کے
دن میرے جد اعلیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ پوچھ لیں
کہ تو نے خود میری پیروی کیوں نہیں کی ؟ کیونکہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں اعمالِ صالحہ
پر موقوف ہے ۔ " یہ سن کر حضرت داؤو طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو رونا آگیا
کہ وہ ہستی جن کے جد امجد سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہیں ، جب ان کے
خوف خدا عَزَّوَجَلَّ کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں ؟" (تذکرۃ الاولیاء
)
امام جعفرصادق کی
اہم خصوصیت
امام جعفر صادق کی
اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے
اورحاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اورلوگوں کو بھی ان باتوں کی نصیحت
کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں:
اپنے رشتے داروں
کے ساتھ احسان کرو اوراپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی
کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔
امام جعفرصادق کی
علمی جلالت
تمام عالم اسلامی
میں آپ کی علمی جلالت کا شہرہ تھا۔ دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لیے آپ کی خدمت میں
حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی۔ ان میں فقہ
کے علما بھی تھے، تفیسر کےبھی،متکلمین بھی تھے اور مناظرین بھی، آپ کے دربار میں مخالفین
مذہب آکر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے اور ان سے مناظرے ہوتے رہتے تھے جن
پر کبھی کبھی نقد وتبصرہ بھی فرماتے تھے اوراصحاب کو ان کی بحث کے کمزور پہلو بتلا
بھی دیتے تھے تاکہ آئندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں۔ کبھی آپ خود بھی مخالفین مذہب
اور بالخصوص دہریوں سے مناظرہ فرماتے تھے۔ علاوہ علوم عربیہ و فقہ و کلام وغیرہ کے
علوم عصریہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی بعض شاگردوں کوتعلیم دی تھی۔ چنانچہ
آپ کے اصحاب میں سے جابر بن حیان طرسوسی سائنس اور ریاضی کے مشہور امام فن ہیں جنھوں
نے چار سو رسالے امام جعفر صادق کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کیے۔آپ کے تلامذہ میں
سے بہت سے بڑے فقہا ہوئے جنہوں نے کتابیں تصنیف کیں جن میں سے خاص طور سے امام ابو
حنیفہ اور امام مالک قابل ذکر ہیں۔
لولا السنتان لهلك
النعمان
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت فرماتے ہیں کہ اگر نعمان نے حضرت
امام جعفر صادق کی صحبت میں دو سال نہ گزارے ہوتے تو نعمان ہلاک ہو گیا ہوتا۔[ مقدمہ سوانح بے بہاے امام اعظم ، ص:
41 از : شاہ ابو الحسن زید فاروقی نقش بندی مجد دی رحمہ اللہ]
امام جعفر استاذ
الکل:
امام جعفر صادق حضرت
علی کرم اللہ وجہہ کے گھرانے کے لعلوں میں سے ایک لعل بیش بہا ہیں. اور علی دروازہ
علم ہیں جس دروازے سے یہ لعل شہر علم میں داخل ہوتے ہیں. تمام علوم انہیں کے گھرانے
کے رہین منت ہیں. امام جعفر وہ ہیں جنہوں نے مجتہدین پیدا کیے، متکلمین، مناظرین اور
واعظین کی فوج تیار کی،جن کے خوشہ چیں صوفیہ و عابدین شب زندہ دار بن کر نکلے، جن سے
لوگوں نے ادب نگاری و سخن سازی سیکھی، جنھوں نے اپنے طلبہ کو کیمیا و سائنس دانی بھی
سکھائی، حدیث وقرآن کی تعلیم جن کا شب وروز کا مشغلہ تھا. ایسی ہشت پہلو شخصیت کو جن
کا احسان سارے عالم اسلام پر ہے جتنا خراج عقیدت و محبت پیش کیا جائے کم ہے.