گنجریا(دیناج پور)میں خواجہ غریب نواز کانفرنس


خواجہ غریب نواز کی تعلیمات پر عمل ہی غریب نواز کی بارگاہ میں اصل خراج عقیدت ہے۔ڈاکٹر محمد شہباز عالم مصباحی
(پریس نیوز) 3/اپریل بروز پیرہند الولی، عطائے رسول، خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی بارگاہ میں ان کے 805ویں عرس کی مناسبت سے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گنجریا نیشنل کلب کی جانب سے غریب نواز چوک ،گنجریا ،دیناج پور،مغربی بنگال میں ایک نہایت ہی عظیم الشان خواجہ غریب نواز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ کانفرنس کی صدارت حضرت علامہ امام الدین رضوی صدر مدرس مدرسہ جوہرالعلوم گنجریا نے کی ۔ نظامت کے فرائض مولانا احمد رضا نوری چنامنا نے انجام دیے۔ مولانا شمیم رضا، مولانا ظفر مامون شمسی اور حافظ وقاری تجمل حسین نوری نے خواجہ ہند کی بارگاہ میں منقبت کے اشعار پیش کیے۔ خاص طور سے حضرت تجمل حسین نوری کے اشعار نے محفل میں سماں باندھ دیا۔خطبائے عظام میں حضرت مولانا شاہد رضا اشرفی نے خواجہ غریب نواز پر بڑی جذباتی وپرجوش تقریر کی۔ ان کے بعد حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد رضوی نے حضرت خواجہ کی ابتدائی زندگی، تعلیم، اپنے پیر حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے بیعت وخلافت، مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں حاضری اور پھر وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پر ہندوستان میں آمد کے بارے میں بتایا۔ انداز بیان کافی عمدہ اورپرکشش تھا۔ بعدہ معروف اسلامی اسکالر وادیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد شہباز عالم مصباحی نے نہایت ہی عالمانہ، محققانہ اور تاریخی خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ ہندوستان میں سب سے پہلے چشتی بزرگ خواجہ ابو محمد چشتی (وصال:409ھ) تشریف لائے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ آپ کی ولادت 537ھ میں سجستان میں ہوئی جو قدیم جغرافیہ نویس کے مطابق ملک خراسان کا ایک حصہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کو سَجَزی کہاجاتاہے جسے لوگ غلطی سے سنجری بول دیتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر میں آپ کے والد حضرت سیدغیاث الدین کا انتقال ہوگیا۔ باقی پرورش آپ کی والدہ نے کی ۔ آپ اپنے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے 10محرم 561ھ میں اسلام کی تبلیغ کے لیے ہندوستان تشریف لائے ۔حضرت خواجہ ہندوستان میں تشریف لاکر رسول اللہ کی سیرت حسنہ پر عمل کرتے ہوئے بلاتفریق ہندوستانیوں سے محبت،رحمت ورافت اور حسن اخلاق سے پیش آئے جس کی وجہ سے لوگ آپ کے اخلاق کے گرویدہ ہوکرجوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے۔ ایک اندازہ کے مطابق نوے لاکھ لوگ آپ کے دست اقدس پر مسلمان ہوئے۔ مولانا شہباز عالم مصباحی نے حضرت خواجہ قطب الدین کے حوالے سے بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں بیس سال حضرت خواجہ کی خدمت میں رہا،لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ حضرت خواجہ نے اس دوران کبھی کسی کو انکار کیا ہو،بلکہ جو شخص بھی آتا اسے آپ کچھ نہ کچھ عطا کرتے اور اس عرصے میں میں نے آپ کو غصہ ہوتے بھی نہیں دیکھا۔ مزید بتایا کہ حضرت خواجہ نے پیارو محبت،رحمت ورافت،امن وشانتی اورروحانیت و تصوف کا جو ماحول قائم کیا اسے ان کے خلفا اور خلفا کے خلفا مثلا حضرت خواجہ قطب الدین،بابا فریدالدین گنج شکر،خواجہ نظام الدین اولیا،خواجہ نصیرالدین چراخ دہلی ،خواجہ برہان الدین غریب،مخدوم عبد الصمدصفی پوری ،شیخ سراج الدین اخی آئینہ ہندمالدہ،مخدوم علاءالحق پنڈوی،قطب عالم نورالحق پنڈوی ، شیخ حسام الدین مانک پوری ا ور مخدوم سید اشرف سمنانی کچھوچھوی نے پورے ہندوستا ن میں پھیلادیا۔ صوفی خانقاہیں آج بھی اسی منہج پر قائم ہیں۔ اس لیے خواجہ صاحب سے عقیدت کا مطلب ہے کہ ان کی محبت واخوت،امن وشانتی ،رحمت ورافت اور تصوف وروحانیت والی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔کانفرنس کے آخری خطیب حضرت مولانا مفتی عرفان عالم مصباحی صدر مدرس دارالعلوم عارفیہ چنامنا نے بھی حضرت خواجہ کی حیات پر بڑی تفصیلی گفتگو کی ،ان کی کرامتیں بیان کیں اور گنجریا نیشنل کلب کے اراکین اور کانفرنس کے منتظمین کو بھی نصیحتوں سے نوازا ۔آخرمیں سماجی خدمت گارمولانا تنویر احمد مصباحی نے تمام مہمانان اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ پھر سلام ودعا اورتبرک کی تقسیم پر کانفرنس کا اختتام ہوا۔ کانفرنس میں سامعین کا ایک ہجوم تھا ۔واضح رہے کہ 3اپریل کو ہی بعد نماز عصر گنجریا نیشنل کلب کا افتتاح بھی ہوا جس کی رسم مولانا جمیل اختر اشرفی اسلام پورنے اداکی۔ کانفرنس کو کامیاب بنانے میں کلب کے تمام اراکین بالخصوص حفیظ الدین نوری،مولانا مقصود شمسی،ساجد عالم،منظور احمد نوری،ابرار عالم ،افروز عالم،محبوب عالم،فیضان رضا،راہل نوری،ناز، ربانی اور سالک احمد کے نام قابل ذکر ہیں۔