تحریک ترقی اتربنگال کی جانب سے ہندوستانی آئین ساز ڈاکٹرامبیڈکرکویاد کیا گیا
ہندوستان ایک کثیرلسانی،کثیر ثقافتی اورکثیرمذہبی ملک ہے-اسی کثیرجہتی کا خیال رکھتے ہوئے ہمارا دستور مرتب کیا گیا ہے- ہمارا دستورنہایت بہترین، منظم، سیکولر، جمہوری اورعوامی دستورہے- اس میں ہرہندوستانی کومذہب، زبان اوراظہار رائے کی بھر پورجائزآزادی دی گئی ہے- کسی بھی مذہب کے عقائد ،معمولات ،رہن سہن اور کھانے پینے کو دوسرے مذہب والوں پر لادا نہیں گیا ہے، بلکہ ہرایک کو اپنے مذہب ودھرم کے لحاظ سے زندگی گزارنے کا مکمل حق دیا گیا ہے- ہمارا یہ دستور26جنوری1950میں پورے ہندوستان میں نافذ کردیا گیاجس کی رو سے یہاں ہرشہری اپنے مذہب،زبان،ثقافت اوراپنی پسند کے ماکولات ومشروبات کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزاررہاہے- لیکن آج ہندوستان میں آرایس ایس سے متاثر سنگھی بجرنگی لوگ اسی سنہرے دستورکی کھلےعام خلاف ورزی کررہے ہیں اوردستورکی بنیادی دفعات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں- کبھی یہ لوگ مسلمانوں کو گاوکشی سے روکتے ہیں تو کبھی” مسجد توڑو اور مندر بناو“ کا اشتعال انگیز نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہاں رہنا ہے توانہیں جے شری رام بولنا ہوگا ورنہ وہ پاکستان چلے جائیں- دادری میں شہید اخلاق کے ساتھ گائے کا گوشت گھر میں رکھنے کے الزام پرجوبہیمانہ ووحشیانہ سلوک کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا یہ اس دستور کے مکمل خلاف اور نہایت ہی غیر انسانی فعل ہے- اسی طرح کبھی یہ عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ مذموم حرکت کرتے ہیں اوران کے چرچوں کی تقدیس کو پامال کرتے ہیں تو کبھی اپنے ہی دھرم کے دلتوں کے خلاف زہراگلنے لگتے ہیں- یہ شرپسند عناصر ہندوستان کوایک نہایت ہی غلط سمت میں لے جانے کی پوری منصوبہ بندی کرچکے ہیں-ایسی صورت حال میں ہندوستا ن کے آئین ساز ڈاکٹر بھیم راوامبیڈکرکو یاد کیا جانا بہت ضروری ہے-اسی ضرورت کے پیش نظرگنجریا(اسلام پور،اتر دیناج پور)کی سماجی تنظیم” تحریک ترقی اتر بنگال“ نے اس باربھارت رتن ڈاکٹر بھیم راوامبیڈکر کے یوم پیدائش پرایک یادگار نشست رکھی- ا س نشست میں بچے، جوان،بوڑھے ،ہندو،مسلم،دلت ہرطرح کے لوگ موجود تھے-نشست کو خطاب کرتے ہوئے تحریک کے صدر ڈاکٹرمحمد شہباز عالم مصباحی نے کہا کہ ڈاکٹر بھیم راوامبیڈکر ہندوستان کے عظیم افراد میں سے ایک تھے جن پرہندوستا ن کو ناز ہے- امبیڈکرکی پیدائش 14اپریل1891میں مدھیہ پردیش کے مہو میں ہوئی تھی- وہ اپنے چودہ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے-ان کی زندگی کافی دکھ بھری تھی-وہ چونکہ ہندو دھرم کے لحاظ سے ایک اچھوت خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے انہیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا-اسکول میں ان کو پانی پینا ہوتا تواسکول کا چپراسی اوپرسے ان کے منھ میں پانی کا گلاس ڈالتا تو وہ پانی پیتے اوراگر کسی دن چپراسی غائب ہوتا اورانہیں پیاس لگتی تو وہ پانی نہیں پی سکتے تھے، بلکہ انہیں پیاسے ہی گھر لوٹنا پڑتا تھا-اس بات کا تذکرہ بھیم راو نے اپنی کتابNo Poen, No Waterمیں کیا ہے-تاریخ میں ہے کہ اچھوت فیملی میں پیدا ہونے کی وجہ سے امبیڈکر کو کلاس روم میں سب سے پیچھے بٹھایا جاتا تھا اوراستاد اس پرکوئی خاص دھیان بھی نہیں دیتا تھا- بھیم راو کی فیملی 1897میں مدھیہ پردیش سے ہجرت کرکے ممبئی کے علاقہ ستارا میں آگئی- یہاں انہوں نے ممبئی یونیورسٹی سے منسلک ایک ہائی اسکول سے دسویں اوربارہویں پاس کیا- پھر ممبئی یونیورسٹی سے سیاسیات ومعاشیات میں گریجویشن کیا-اس کے بعد بھیم راوبرودہ میں ایک ملازمت سے وابستہ ہوگئے- اسی دوران ان کے والد کی موت ہوگئی -بھیم راو کی تعلیمی لگن کو دیکھ کر برودہ کے مہاراجا نے ان کو مزید اعلی تعلیم کے لیے اسکالر شپ دینے کا وعدہ کیا جس سے وہ امریکہ گئے اور وہاں کولمبیا یونیورسٹی سے ایم اے کیا- اسی یونیورسٹی نے انہیں ان کے مایہ ناز تھیسسThe Evolution of Provincial Finance in British India پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی-اس کے بعد اسکالرشپ ختم ہونے کی وجہ سے وہ ہندوستان آگئے-پھروہ 1920میں ایک دوست کی مدد سے لندن گئے جہاں سے انہوں نے اپنے تھیسسThe Problem of the Rupee پرڈی ایس سی کی ڈگری حاصل کی- تین سال رہ کر1923میں وہ لندن سے ہندوستان آئے اورپھر یہاں انہوں نے نچلے اوراچھوت لوگوں کو مساوی حقوق دلانے کے لیے جنگ چھیڑدی- اس کے ساتھ انہوں نے عورتوں اورغریبوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلندکی-1923ہی میں انہوں نے ”بہشکرت ہیتکرینی سبھا“ نامی ایک ایسوشی ایسن قائم کیا جس کا مقصد نچلے طبقے کے لوگوں میں تعلیم و ثقافت کو فروغ دینا اوران کی بدترین معاشی حالت کو سدھارنا تھا-1927میں انہوں نے کولابا ،ممئی میں ”ماہَد مارچ“نکالا تاکہ اچھوت لوگ بھی عام کنووؤں اورتالابوں سے پانی لے سکیں جو کہ اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے منع تھا- اسی مارچ میں انہوں نے منوسمرتی کی کاپیاں برسرعام جلاڈالیں جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اچھوت اگرکوئی شلوک سن لے تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینا چاہیے- 1930میں انہوں نے مندروں میں اچھوتوں کے داخلہ کے لیے کالارام مندر،ناسک کے پاس ایک تحریک بھی چلائی-اس طرح وہ مساوی انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے لیے ہمیشہ لڑتے رہے- ڈاکٹر امبیڈکر نے لندن میں منعقدہ تینوں گول میزکانفرنس میں شرکت کی جن میں بھی انہوں نے اچھوتوں کے حقوق کے لیے اپنے نظریات رکھے- زندگی بھر کی کوششوں کے بعد ان کا یہ نظریہ بنا کہ ہندو مذہب میں رہ کراچھوتوں کو کوئی تابناک مستقبل نہیں مل سکتا جس کی وجہ سے انہوں نے تبدیلی مذہب کا فیصلہ کرلیا اور1935میں انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ”اگر چہ میں ہندو پیدا ہوا ہوں،لیکن ہندو نہیں مروں گا-“کچھ عرصے کے بعد انہوں نے” انڈیپنڈنٹ لبر ل پارٹی“بھی بنائی-اسی دوران انہوں نے ہندوستان سے جاگیرداری نظام کو ختم کرنے پربھی بھر پورزور دیا- 15اگست1947میں جب ہندوستان آزاد ہوا اور پنڈٹ جواہر لال نہرو پہلے وزیراعظم بنے توان کو پہلا وزیر قانون بھی بنایا گیا- بعد میں انہوں نے ”ہندو کوڈ بل “پر حکومت سے اختلاف کی وجہ سے اس وزارت سے استعفا دے دیا- امبیڈکر کی زندگی میں نہایت ہی کامیاب موڑ اس وقت آیا جبکہ قانون ساز اسمبلی نے ہندوستان کی آئین سازی کے لیے ایک کمیٹی مقررکی اورامبیڈکرکو اس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا- ڈاکٹر امبیڈکر نے آئین کو پورے طور سے مرتب کرکے دوسال کے عرصے میں اسمبلی کو سونپ دیا- آئین میں پچھڑے قبائل،پچھڑی ذاتیوں اور بیک ورڈ لوگوں کو مکمل سماجی انصاف دیا گیا اوران کے حقوق کا بھر پوردھیان رکھا گیا-انہوں نے آئین میں تمام شہریوں کے لیے ہر طرح کے حقوق ،ان کی آزادی ،اتحاد اور احترام پر خاص توجہ دی-اس طرح انہوں نے ہندوستان جیسے متنوع ملک کو ایک نہایت ہی شاندارسیکولر،جمہوری اور عوامی دستور دیا - 14اکتوبر 1956میں انہوں نے ہندو مذہب کو ترک کرکے اپنے بہت سارے پیروکاروں کے ساتھ بودھ مذہب اختیار کرلیا- بتایا جاتا ہے کہ امبیڈ کر اسلام مذہب قبول کرنا چاہتے تھے ،لیکن ایس سی اور ایس ٹی کے لیے ریزرویشن کے مسئلے پرگاندھی جی سے بحث ومباحثہ کے دوران ایک دن گاندھی نے ان سے کہا کہ مذہب بدلنا چاہتے ہیں تو سکھ مذہب یا کوئی اور اپنالیں،پر اسلام نہیں- امبیڈکر جہاں ان ساری خوبیوں کے مالک تھے وہیں وہ ایک بڑے مصنف بھی تھے - انہوں نے بہت ساری قیمتی کتابیں بھی لکھیں- 6دسمبر1956میں باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے- مصباحی صاحب نے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ آج امبیڈکر جی کے لیے ہم سب کی جانب سے سب سے بڑا خراج یہ ہوگا کہ اس ملک میں جمہوریت کو پامال ہونے سے روکا جائے اور ان کے مرتب کردہ آئین ہند کی مکمل پاسداری کی جائے- مصباحی صاحب کے بعد ہندو برادری کے جناب نوگین کرمکار نے بنگلہ زبان میں امبیڈکر کوخراج عقیدت پیش کیا اوراپنے خطاب میں انہوں نے یہ ایک اضافی بات بتائی کہ امبیڈکر کے والد کے ایک بھائی سادھو تھے جنہوں نے امبیڈکر کی پیدائش سے پہلے ہی اپنے بھائی کو بتا دیا تھا کہ تمہارے گھرمیں ایک لڑکا جنم لے گا جو ہندوستان کا نام روشن کرے گا-اس یادگاری اجلاس کی نظامت کے فرائض تحریک کے سکریٹری منظوراحمد نوری نے انجام دیے- نشست کو کامیاب بنانے میں تحریک کے تمام کارکنان نے کافی دلچسپی کا مظاہرہ کیا-