اورمیری آنکھیں ڈبڈبا گئیں


آج صبح اٹھا تودل بڑامغموم تھا۔ پتہ نہیں وجہ کیا تھی۔ ویسے بھی غم واداسی میرے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ اسی اداس ومغموم کیفیت کے ساتھ اپنی بیماروالدہ کوڈاکٹر سے چیک اپ کرانے کے لیے اسلام پور لے آیا جو گھر سے 6کلو میٹردورہے۔ ڈاکٹر کے کمپاؤنڈرنے 117نمبرکا ٹوکن دیا اورکہا کہ دو ڈھائی گھنٹے کے بعد آئیں۔ تبھی والدہ نے کچھ کھانے کی خواہش ظاہر کی ۔ ایک ہوٹل میں میں نے ان کو ناشتہ کرایا اورپھر بل ادا کرکے ہم ماں بیٹے ایک دوائی کی دکان کے صحن میں بیٹھ گئے جو ڈاکٹر کے چیمبر کے بالکل اپازٹ میں واقع ہے ۔ یہاں ہوا بڑی اچھی آرہی تھی ۔ میں سر جھکائے کچھ سوچ رہاتھا کہ کسی کے سلام کرنے کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ سلام کی آوازسن کرمیں نے نگاہ اوپراٹھائی اورسلام کا جواب دیا،لیکن سلام کرنے والے چونکہ ایک سفید ریش بزرگ تھے اس لیے جواب کے بعد میں نے پھر سلام کردیا۔ وہ بزرگ میرا سلام سن کرمیرے پاس آئے اورفرمایا کہ آپ کو سلام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جب میں نے سلام کردیا تھا تو آپ کو صرف جواب دینا تھا۔ میں نے کہا کہ بات آپ کی صحیح ہے ،لیکن میں نے یہ سوچ کرکہ مجھے آپ کو سلام کرنا تھا اس لیے سلام کردیا ۔اس پروہ خوش ہوئے اورپھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کہاں کے ہیں؟میں نے بتایا گنجریا میرا گھر ہے۔ گنجریا کا نام سن کرکہنے لگے کہ میں وہاں مکھیا عبد الجبار صاحب کے گھرجاگیر کے طورپر رہ چکاہوں۔ پھر انہوں نے ان کے دونوں بیٹوں کی خبرخیریت پوچھی۔ میں نے اس بزرگ سے اپنے اور اپنی والدہ کے لیےدعا کی درخواست کی۔ اس کے بعد انہوں نے میرا ایک ہاتھ پکڑلیا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیے۔ ایک بزرگ کی بات کو ٹالنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ میں والدہ سے کچھ دیر کی اجازت لے کران کے ساتھ ہولیا۔ وہ مجھے دو چارگلیوں کے بعد اسلام پور بازار کی جامع مسجد میں لے آئے جہاں ظہرکی آذان ہورہی تھی۔ ظاہر ہے ایک بزرگ اللہ کے گھر کے علاوہ کہاں لے جاسکتا ہے۔ وہاں جامع مسجد کی ایک دیوار پرایک جلسے کا پوسٹرآویزاں تھا جس میں صدارت کے خانے میں خانقا ہ عالیہ سمرقندیہ دربھنگہ کے صاحب سجادہ پیرطریقت حضرت مولانا سید شاہ نورعلی صاحب قبلہ حفظہ اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا تھا جنہیں ہمارے یہاں کے عرف عام وخاص میں "حضورعالی" کہاجاتاہے۔ وہ بزرگ پوسٹر کے اس خانے میں اپنی ایک انگلی پھیرتے ہوئے مجھ سےکہنے لگے کہ یہ حضورعالی کا نام ہے نا۔ میں نے کہا ہاں۔ میری تائید سن کران کی پیشانی پرمسرت کی لکیریں ابھر گئیں اورآنکھوں میں چمک تیز ہوگئی۔ پھر کہنے لگے کہ مولانا! کسی میں دم ہے کہ وہ کہے کہ میں تم کو جنت میں لے جاؤں گا۔ میں نے کہا نہیں۔ اس کے بعد کہنے لگے کہ ایک دن میں نے حضورعالی سے عرض کیا تھا کہ آپ مجھے جنت میں لے جائیں گے نا ؟جس پر حضورنے فرمایا تھا کہ انشاءاللہ میں تم کو جنت میں لے جاؤں گا۔ ان کی یہ بات سن کرمیری آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہ ایک شخص کو دنیا ہی میں اپنے پیرکی جانب سے جنت کی بشارت مل چکی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں یہ۔ اسی کے ساتھ حضورعالی کے مقام وعظمت کا مزید یقین ہوا۔ اس کے بعد میں نے ظہرکی نمازاداکی اوراپنی والدہ کے پاس آکرانہیں ڈاکٹر کو دکھا کرکے گھرلوٹ آیا۔ گھرآکر اس کا تذکرہ میں نے حضرت مولانا عبدالباقی مصباحی نوری مدظلہ سے کیا تو آپ نے اس بشارت کی تائید کی۔ یہ مجذوب الحال بزرگ شرافت حسین ساکن جھاڑ باڑی ایک زمانے تک حضورعالی کے خادم رہ چکے ہیں۔ واہ رے خادم تیرے مقدر پر ہمیں ناز ہے۔