جامعہ ازہر ہند کا قیام، ہمارا احتجاج اور جامعہ ازہر مصر کا رد عمل
جامعة الأزهر مصر، عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے. اس کا قیام عہد فاطمی میں جوہر الصقلی کے ہاتھوں 359ھ /970ء میں عمل میں آیا. یہ ایک سنی صوفی ادارہ ہے. اس کا منہج اعتدال اور وسطیت ہے. عالم اسلام کے تمام ممالک اور مغربی ممالک بھی اسلامی مسائل میں رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں. اس کے فتاوی پوری دنیا میں اعتماد و استناد کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں. اسی اعتماد و استناد کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستان میں ایک ادارہ اسی نام سے بنایا جا رہا ہے. یہ ادارہ بنے اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے. لیکن اس کا نام جامعة الأزهر نہیں بلکہ کوئی اور نام ہونا چاہیے. ہندوستان میں الجامعة الأشرفية مبارک پور، دارالعلوم دیوبند، ندوة العلماء، لکھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس اور مرکز الثقافة السنية، کیرالا وغیرہ بڑے ادارے ہیں. ہندوستان میں کہیں بھی ان اداروں کے نام پر کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہے کیونکہ اشرفیہ کے مصباحی، دارالعلوم کے قاسمی، ندوہ کے ندوی، سلفیہ کے سلفی اور ثقافہ کے ثقافی کا اپنا ایک تفرد ہے. اسی طرح ازہری فارغین بھی اپنا ایک تفرد رکھتے ہیں. اب اگر کوئی اور ادارہ اسی نام سے کھولا جاتا ہے تو جامعہ ازہر اپنا تفرد کھو دے گا اور بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستانی ازہر کے فارغین ازہری نسبت کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں میں غیر معتدل مزاج کو فروغ دیں جس سے جامعة الأزهر مصر کے اعتدال پسند مزاج کو کافی دھکا پہنچے گا. میں جامعة الأزهر مصر کے شیخ اکبر، تمام نائب رئیس اور ذمہ داران سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فوراً ہندوستانی ایمبیسی کو اس سے متعلق آگاہ کریں کہ نئی دہلی، ہندوستان میں ایک ادارہ کھولا جا رہا ہے جو ہمارے نام کو استعمال کر رہا ہے. لہذا ایمبیسی سے گزارش ہے وہ کہ اس ادارہ کو یہ نام بدلنے اور ہماری دیگر کاپی رائٹ چیزوں کو استعمال نہ کرنے کا حکم جاری کرے.
لیجیے جامعة الأزهر مصر نے نئی دہلی میں قائم ہونے والے نام نہاد جامعة الأزهر کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے جیسا کہ جامعة الأزهر مصر کی استاذ محترمہ منى حندقها صاحبہ نے مجھے مسیج کر کے اس کی اطلاع دی۔ آپ بھی مسیج پڑھ لیں۔ مسیج کا ترجمہ: "السلام علیکم و رحمة الله و بركاته! شیخ ازہر اور دیگر ذمہ داران کو ہندوستان کے جامعة الأزهر کے بارے میں اطلاع دے دی گئی ہے اور اس تعلق سے ضرور کارروائی کی جا رہی ہے۔" مسیج کا شارٹ اسکرین پیش خدمت ہے۔ ہم لوگوں کے مخلصانہ احتجاج کا نتیجہ۔ ماشاءاللہ
ﻫﺬﺍ ﻛﺎﻥ ﻣﻤﺎ يجب ﻋﻠﻰ ﺟﺎﻣﻌﺔ ﺍﻷﺯﻫﺮ ﺍﺗﺨﺎﺫ ﺍﻹﺟﺮﺍءﺍﺕ ﺍﻟﻼﺯﻣﺔ
ﺿﺪ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺪﺭﺳﺔ. ﻭ ﻣﺎﺷﺎء ﺍﻟﻠﻪ ﻗﺪ ﺑﺪﺃﺕ ﺍﺗﺨﺎﺫﻫﺎ. جزا الله السيدة منى حندقها الأستاذة بجامعة الأزهر لتبليغها شيخ الأزهر والمسؤولين بخصوص ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺪﺭﺳﺔ
ﺍﻟﻤﺰﻭﺭﺓ في الهند باسم جامعة الأزهر. و جزا الله الطلبة الهنود بالأزهر الذين قد حاولوا أيضا بهذا الخصوص.
اسے بھی پڑھیں. اس میں جامعہ ازہر دہلی کے منتظم نے یہ صفائی دی ہے کہ ہمارا مقصد نام نقل کرنا نہیں اور نہ ہی ازہر کی اہمیت کم کرنا ہے. منتظم صاحب سے کہنا یہ ہے کہ نام کی نقل تو آپ نے کر ڈالی ہے اور رہی بات ازہر کی اہمیت کم کرنے کی تو اسے آپ کبھی نہیں کر سکتے اور اس کا خواب بھی نہ دیکھیں. البتہ آپ ازہر نام کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن اس مقصد میں بھی آپ کامیاب نہ ہو پائیں گے ان شاء اللہ. اس کے لیے بہت کچھ کیا جا چکا ہے اور بھی کچھ ہونے والا ہے. انتظار کریں. منتظم صاحب سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ یہ نام رکھنے میں واقعی مخلص ہیں اور ازہر ہی کی طرز پر یہ ادارہ ہندوستان میں چلانا چاہتے ہیں تو آپ نے جامعہ ازہر سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ وہاں سے اجازت کیوں نہیں لی؟ شیخ ازہر کو افتتاح کے موقع پر کیوں نہیں بلایا؟ وہاں کا نصاب آپ کے ادارے میں کیوں نہیں؟ اس کے بجائے شیخ ابن تیمیہ کے افکار اور جامعہ مدینہ کا نصاب چلانے کی بات کیوں؟ جبکہ ازہر اور جامعہ مدینہ میں فکری بعد ہے. صحیح ہے نا
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
روزنامہ انقلاب میں شائع شدہ اس مراسلہ کے مراسلہ نگار کا نام مجھے فرضی معلوم دے رہا ہے. نام کے فرضی ہونے کے ساتھ یہ بھی کہ مراسلہ نگار نے اپنا کوئی ایڈریس بھی نہیں دیا ہے. خیر آپ حضرات بھی اسے بغور دیکھیں. مراسلہ نگار نے دہلی میں قائم ہونے والے جامعة الأزهر کے سلسلے میں اپنی بے پناہ مسرت کا اظہار کیا ہے جو ان کا پورا حق ہے. ہم بھی اس مدرسے کے قیام کو لے کر معترض نہیں ہیں. اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ جامعة الأزهر مصر کے نام کی کاپی نہ کی جائے بلکہ ادارہ کا کوئی اور نام رکھا جائے. اس ادارہ کو قائم کرنے والے سلفی حضرات ہیں لہذا ان کو چاہیے تھا کہ ادارہ کا نام جامعة السلف، جامعة اہل الحدیث وغیرہ رکھ لیتے. ہمیں پورا یقین ہے کہ جان بوجھ کر جامعہ ازہر کے نام کی کاپی کی گئی ہے اور اس کے پیچھے جامعہ ازہر کے منہج اعتدال و وسطیت کو نقصان پہنچانے کے خفیہ منصوبے ہیں. جو لوگ یہ ادارہ قائم کررہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ان کو نئے نام نہیں مل رہے ہیں یا وہ رکھ نہیں سکتے، بلکہ یہ اچھی عربی جانتے ہیں اور درجنوں نئے نام رکھ سکتے ہیں لیکن......... .....خیر اطمینان رکھیں جامعة الأزهر مصر کی جانب سے اس نومولود ادارہ کے خلاف بیان جاری ہو چکا ہے جسے آپ azhar.eg میں مرصد ازہر میں جاکر ملاحظہ کرسکتے ہیں اور عنقریب شیخ ازہر کا بیان بھی آنے والا ہے جس کے لیے ازہر میں پی ایچ ڈی کر رہے مولانا Izhar Ahmad Saeedi صاحب اور دوسرے کچھ حضرات پوری کوشش کررہے ہیں. ازہر مصر کا بیان ازہر کی اپنی ویب سائٹ کے اس لنک پر جا کر ملاحظہ کر سکتے ہیں. http://www.azhar.eg/…/بیرون-مصر-جامعہ-ازہر-کی-کوئی-شاخ-نہیں…