عید اور ہمارا مسلم معاشرہ
محمد شہباز عالم مصباحی
ہم اس تحریر میں ’’رسمی مظاہرہ‘‘ اور ’’اخلاقی مظاہرہ‘‘ کی دو اصطلاح استعمال کریں گے۔رسمی مظاہرہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو ضرورتِ رسم کے تقاضے کے تحت ہی کیا جائے اور اخلاقی مظاہرہ کا معنی ہے کہ کسی بھی کام کو اسلامی اسپرٹ اور اخلاقی تقاضے کی رو سے انجام دیا جائے اور اخلاق و اقدار کے اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب حاصل کیے جائیں تاکہ ہمارامعاشرہ ایک بہترین اخلاقی ، انسانی ،دینی اور روحانی معاشرہ بن سکے۔آج کا انسان ہر کام کو اول الذکر رسمی مظاہرہ کے طور پر ہی کرتاہے اورثانی الذکر اخلاقی مظاہرہ کے بارے میں بہت کم سوچتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کی یہ دنیا اخلاقی و انسانی اقدار سے عاری نظر آتی ہے ۔جدید مسلم معاشرہ بھی تقریباً ضرورتِ رسم ہی کے اصول پر گامزن ہے اور اسلام کے بے لوث اخلاقی اصولوں سے نابلد ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم عید الفطر کے دن ’’رسمی مظاہرہ ‘‘کے تحت اپنی عِطر کی شیشی اپنے دوسرے احباب و اقربا کو تو پیش کرتے ہیں،لیکن عید کے علاوہ دنوں میں ہماری عطر کی شیشی صرف اپنے ہی کو مہکانے کے لئے ہوتی ہے اور ’’اخلاقی مظاہرہ‘‘کے تحت ہم دوسروں کو معطر نہیں کر تے۔اسی طرح ہم میں سے اکثر لوگ صرف عید ہی کے دن مصافحہ یامعانقہ کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرے دنوں میں وہ اسے اپنی کسر شان سمجھتے ہیں۔جبکہ عید ہر سال ان سماجی و اخلاقی آداب کی یاد دہانی کے لئے آتی ہے،نہ کہ اس بات کے لئے کہ ان سماجی و اخلاقی آداب کو صرف عید کے دن ہی کے لئے مخصوص کر لیا جائے جس سے وہ ’’دائمی اخلاقی مظاہرہ‘‘ کے بجائے’’وقتی رسمی مظاہرہ‘‘بن کر رہ جائیں۔
عید الفطر کے آداب میں سے ہے کہ آدمی اپنے گھر اور گلی محلے کو صاف شفاف کر ے ،اچھی طرح سے نہائے اور اپنے بچوں کو نہلائے ، صاف ستھرے کپڑے خود پہنے اور بچوں کو بھی پہنائے،چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے،یتیموں اور بیواؤں کی دلجوئی اور ان کی مالی امدادکرے،بڑوں کی تعظیم و توقیر بجا لائے،ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرے،آپسی اختلافات کو دور کرے اور عفو و درگذر میں پہل کرے،رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ملاقات کے لئے جائے اور فقرا و مساکین کی حاجتیں پوری کرے۔عام طور سے مسلم سوچ یہ ہے کہ درج بالا سماجی و اخلاقی آداب صرف عید ہی کے دن کے لئے مخصوص ہیں ،عید کے دن ہم نے ان چیزوں کو کر لیا بس سال بھر کے لئے ہماری چھٹی ہو گئی۔اس کے بعد پورے سال ہمیں ان چیزوں کی قطعی فکر نہیں ہوتی۔جبکہ عید سال میں ایک بار صرف ان چیزوں کی یاد دہانی کے لئے آتی ہے اور اس یاد دہانی کو ذہن میں رکھتے ہو ئے ہمیں ان امور کو پورے سال ’’اخلاقی مظاہرہ ‘‘کے طور پر انجام دیتے رہنے کی درخواست کر تی ہے۔یہی وہ پیغام ہے جو عید ہمیں ہر سال دیتی ہے ۔یہ پیغام واقعی سال بھرہمارے کانوں میں گونجنا چاہیے۔خاص طور سے آج جبکہ چاروں طرف نفرت و تشددکا بازار گرم ہے۔ مذہب جو آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا، اس کے نام پر ہی نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ایسی صورت حال میں اخلاقی، انسانی اور مذہبی اقدار کے دائمی مظاہرہ کی کتنی ضرورت ہے وہ آپ سے مخفی نہیں۔
درج بالا’’ رسمی مظاہرہ‘‘ کا یہی اصول کار فرما ہے کہ ہندوستان میں صدقۂ فطر کا صرف ادنیٰ درجہ ہی ادا کیا جا تا ہے کہ آدھے صاع گیہوں کی قیمت (تقریبا ۴۹؍روپے)ادا کر دی بس ضرورتِ رسم پوری ہو گئی۔جبکہ حدیث کی رو سے صد قۂ فطر تین درجوں میں منقسم ہے۔اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ اور قیمتی چیز اللہ کی رضا کے لئے ادا کی جائے جیسے کہ ہندوستان میں ایک صاع کشمش ،منقیٰ(تقریبا ۴؍کلو،۹۰ گرام) یا ان کی قیمت۔اوسط درجہ یہ ہے کہ وہ چیز ادا کی جا ئے جس کی قیمت متوسط ہو جیسے ایک صاع کھجور،پنیر یا ان کی قیمت۔ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ سب سے کم قیمت والی چیز ادا کی جائے جیسے کہ ہندوستان میںآدھا صاع گیہوں ،جَو یا ان کی قیمت جو کہ رائج ہے۔غور کریں اگر ایک صاع کشمش یا ایک صاع کھجور کی قیمت صدقۂ فطر میں نکالی جائے تو محتاجوں کا کتنا بھلا ہو جائے گا،لیکن ہم اس کے برعکس ہم مذہب سے رسمی دلچسپی ہونے کے ناطے ادنیٰ درجہ والا صدقۂ فطر نکالتے ہیں۔ہمیں اس معاملے میں بھی کشادہ دلی کے ساتھ نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور ادنی درجہ کے بجائے اعلی اور متوسط درجے کا صدقۂ فطر نکالنے کا دینی جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کی اس دریا دلی سے غریب و مفلس مسلم گھرانوں میں عید کے دن واقعی خوشی کے چراغ جل اٹھیں۔صدقۂ فطرکا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر اس آزاد مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو(یعنی ۲۳ہزار ۶۶۷روپے)،اصلی حاجت سے زائد اورقرض سے فارغ ہو۔اس میں مال کے مالک کا عاقل بالغ یا مال کا نامی ہونا شرط نہیں۔یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا مجنون اگر مالک نصاب ہیں تو ان پر صدقہ واجب ہے۔ان کا ولی ان کے مال سے ادا کرے۔اگر ولی نے ادا نہیں کیا اور نا بالغ بالغ ہوگیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ خود ادا کریں۔مالک نصاب مرد پر اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقۂ فطر متعین کیا ہے تاکہ وہ روزہ دار کے لیے بے ہودہ اور لغو باتوں سے پاکی کا ذریعہ ہو اور مساکین کے لیے غذا۔(سنن ابی داؤد،باب زکاۃ الفطر،۲؍۱۱۱)۔صدقۂ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نمازِ عید سے پہلے ہے۔البتہ رمضان کے آخری عشرے میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔
ان باتوں کے علاوہ سچرکمیٹی رپورٹ کی رو سے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال نہایت ہی ابتر ہے ہے ۔اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے عید کا یہ پیغام بھی ہے کہ سنہ ۲ ہجری میں جو عید ہوئی تھی ،اس عید کے قبل ماہ رمضان کی ۱۷ تاریخ (بمطابق۱۳؍مارچ،۶۲۴ء)میں جنگ بدر واقع ہو ئی تھی جس میں مکہ کے بڑے بڑے کفار قیدی بنا کر مدینہ لا ئے گئے تھے اور ان میں پڑھے لکھے کفار کا فدیہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ دس دس ان پڑھ صحابہ کو پڑھنے لکھنے کی تعلیم دے دیں۔اس طریقۂ فدیہ سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم سے دلچسپی ظاہر ہو تی ہے اور یہ بتا تا ہے کہ ہما رے رسول اعظم ہمیں ایک پڑھی لکھی قوم کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے تھے۔لہذا خاص طور سے ہم ہندوستانی مسلمانوں کو کم از کم بیس سال تک کی عید کو تعلیم کی راہ پر لگا نا چا ہیے اور ہر عید میں اس بات کا جائزہ لینا چا ہیے کہ ہم نے اپنے کتنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور اپنے ساتھ اپنے پاس پڑوس اور شہر یا گاؤں و اطراف کے کتنے مسلمانوں کو تعلیم کی اہمیت و افادیت سے باخبر کیا۔خطبا کو بھی چاہیے کہ وہ ہر عید کے اجتماعی موقع پر تعلیم کے بارے میں مسلمانوں کو ضرور بتا ئیں اور ایسی جاں گسل کو شش ہو کہ ایک بھی مسلم بچہ بے علم نہ رہے۔اگر ہم نے بیس سال کا روڈ میپ بنا کر یہ قربانی دے دی تو پھر ہندوستان میں ہماری عظمت و رفعت کے دن لوٹ آنے میں دیر نہ لگے گی اور ہم محتاجِ دگراں کے بجائے مختارِ دگراں بن جائیں گے۔
اخیر میں عبرت کے لئے امیر المؤ منین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا طریقۂ عید درج ہے کہ عید کے دن ان کا کیا معمول ہوتا تھا۔تاریخ میں ہے کہ جب عید آتی تو آپ زار و قطار روتے ۔پو چھا جا تا کہ آپ اس قدر کیوں رو رہے ہیں ؟آج تو عید ہے ،خوشی منا نے کا دن ہے۔یہ سن کر امیر المؤ منین فر ماتے: ہٰذا یو مُ العیدِ و ہٰذا یومُ الوعیدِ یہ خوشی کا دن ہے اور خوف کا دن بھی ۔خوشی اس کے لئے ہے جس کے روزے مقبول ہو ئے اور جس سے اللہ راضی ہوا ،لیکن جس کے نہ روزے مقبول ہو ئے اور نہ اللہ راضی ہوا تو اس کے لئے یہ عید اللہ سے ڈرنے کا دن ہے ۔و أ نا لا أ درِی أَ مِنَ المقبُولینَ أمِ منَ المطرُودِینَ اور میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ میں مقبولوں میں سے ہوں یا غیر مقبولوں میں سے۔چنانچہ میں اسی لئے رورہا ہوں کہ نہ جانے اللہ تعالیٰ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک فرمائے۔امیر المؤ منین کے اس رویے کے بر عکس آج بالعموم مسلم نوجوانان عید کے دن ہر طرح کے لہو و لعب اور خرافات میں ڈوبے نظر آتے ہیں ۔گویا یہ ہمارا اپنا ایجاد کردہ ایک رسمی مظاہرہ بن گیا ہے کہ عید کے دن خر مستی نہ ہو ئی تو عید ہی نہ ہو ئی،جبکہ امیرالمؤ منین کا اخلاقی واسلامی مظاہرہ یہ تھا کہ وہ عید کے دن خوف الہی سے رو تے تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں فاروقی روش پر چلنے کی تو فیق عطا فر مائے۔
mdshahbaz2585@gmail.com*